Monday, August 31, 2015

سیلفی

آج کل ہر طرف ایک وبا پھیلی ہوئی ہےجسے سیلفی کہا جاتا ہے۔ جسے دیکھیں چاہے عورت ہو یا مرد سیلفی لے رہا ہے     اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر رہا ہے ، یہ یہاں تک ہو گیا ہے کہ لوگ جہااں جاتے ہیں جیسے دعوت طعام ہو شادی ہو یا میت و جنازہ ہو پریزیڈنت ہاوس ہو یا قبرستان ، بس موبائل نکالا اور سیلفی شروع، چاہے وہاں موجود دیگر افراد کو کتنا ہی ناگوار گزرےمگر سیلفیاں بنتی رہتی ہیں۔ محققین اور ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ سیلفی اب محض شوق یا فیشن نہیں رہی بلکہ اب یہ بیماری کی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ ماہرین نفسیات نے اس بیماری کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے۔
ایک : اگر کوئی دن میں تین بار سیلفی لے مگر اسے کہیں اپلوڈ نہ کرے تو وہ بورڈر لائن میں ہے
دو : اگر کوئی دن میں تین سیلفیاں لے کر انہیں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کارتا ہے تو اس کا مرض شدت اختیار کر رہا ہے۔
تین : اور اگر کوئی دن بھر میں چھ سیلفیاں لے کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتا ہے تو مطلب ہوا اس کا مرض شدت اختیار کر چکا ہے۔

اس تحقیق کی روشنی میں آپ بھی اپنا جائزہ لیجیے کہیں آپ بھی تو اس مرض کا شکار نہیں ہیں؟

ویسے یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے ہاں مگر سیلفی اس کی ایک جدید شکل ہے۔ اس کو اردو میں نرگسیت کہتے ہیں ، اس کا شکار خودپسند ہو جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں اسے اپنی زات سے عشق ہو جاتا ہے جویقینا کوئی نارمل حالت نہیں ہے۔ آپ ایسے لوگوں کا جائزہ لیں جب وہ بار بار اپنی تصویریں اتار کر دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو سراہیں ان کی تعریف کریں ۔ اور جہاں تک مسئلہ سوشل میڈیا کا ہے تو وہاں ایک فیشن سا بن گیا ہے کہ چاہے کسی کو تصویر پسند آئے یا نہ آئے چاہے سچی یا پھر طوعا و کرہا جھوٹی تعریف کی جاتی ہے ، خصوصا اگر سامنے کوئی لڑکی ہو تو بری سے بری تصویر پر بھی تعریفوں اور لائکس کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔ غالبا اسی وجہ سے صنف نازک میں صنف کرخت کے مقابلے میں سیلفی لینے کا رحجان یا بیماری کہیں زیادہ شدید ہے۔

 علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ ۔ ہمارے علامہ اقبال صاحب بھی سیلفی کے بڑے شوقین تھے

 آپ نے ان کی وہ تصویر تو دیکھی ہو گی جس میں وہ ایک ہاتھ کی مٹھی بنا کر اس پر سر کو ٹکا ئے نیم وا آنکھوں سے پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں اس وقت انہوں نے دوسرے ہاتھ سے کیمرہ کلک کیا تھا اور یہ یادگار سیلفی لی تھی۔ ہمیں تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سیلفی کا لفظ بھی علامہ صاحب کی ایجاد ہے اور اس پر انہوں نے شاعری بھی کی ہے۔ ارے آپ حیران ہو رہے ہیں، اچھا بتائیں اردو میں سیلف کو کیا کہیں گے؟ جی خود، اب اس میں ی کا اضافہ کریں، خودی۔ ہے نہ علامہ صاحب کی ایجاد؟ لوگ اسے ان کا فلسفہ بھی کہتے ہیں فلسفہ خودی یعنی فلوسفی آف سیلفی۔ خیر اب مغرب والے تھوڑا ہی نہ ہمیں کریڈٹ دینگے اس لیے جانے دیں۔

ہم نے بھی کافی سفر کیے ہیں اور دیکھا ہے کہ مختلف ممالک کے سیاح اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک کی خاک چھانتے پھرتے ہیں، پہلےیہ ہوتا تھا اور ہم بھی ایسا کر چکے ہیں کہ اگر آپ اکیلے سفر کر رہے ہیں تو جہاں تصویر کھنچوانی ہے وہاں آپ نے کسی بھی خاتون یا مرد کو خواہ وہ سیاح ہو یا راہگیر روک کر گزارش کی کہ برائے مہربانی میری تصویر کھینچ دیں اور عموما کوئی اس سے منع نہیں کرتا تھا یوں ہی آپ سے بھی کوئی درخواست گزار ہوتا تھا تو آپ بھی منع نہیں کرتے تھے ، مگر اب دور بدل چکا ہے، اور اب یوں بھی ہونے لگا ہے کہ آپ نے کسی کو کیمرہ یا فون دیا کہ میری تصویر بنا دیں  اب آپ ایک گمبھیر سا پوز بنا کر افق کے اس پار دیکھنے لگے کلک ہوئی تو رخ بدل کر شکریہ ادا کر کے اپنی ڈیوائس واپس  لینے لگے تو پتا چلا کہ وہ بندہ آپ کے کیمرے یا فون سمیت غائب ہو چکا ہے۔ اس طویل فہرست میں افریقہ کے ممالک قاہرہ پیرس روم لندن ممبئی اور خیر سے کراچی بھی شامل ہیں۔ اس لیے اب کسی پر بھروسہ کرنے کا رسک نہیں لے سکتے اس لیے خود ہی سیلفی لے لیتے ہیں اب تو اس مقصد کے لیے فولڈنگ ڈنڈے بھی آ گئے ہیں جن میں موبائل پھنسا کر بازو لمبا کر کے ذرا دور کا پوز بھی لیا جا سکتا ہے۔

جو لوگ دن رات اپنی سیلفیاں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے رہتے یں۔ ان میں سے کچھ صورتیں تو واقعی ایسی ہوتی ہیں کہ بقول میر:  دلی کے نہ تھے کوچے ، اوراق مصور تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شکل نظر آئی ، تصویر نظر آئی۔
مگر کیا کریں ان کا کہ کچھ لوگ جو اپنی سیلفی اپلوڈ کرتے ہیں دیکھ کر دل کرتا ہے کاش ان کے کیمرے میں لینز کی جگہ ۹ ایم ایم کی ناال فٹ ہوتی۔
آخر میں ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ بے شک سیلفی لیں اور خودی کو بلند کریں مگر ہر کام نارمل رہ کر کریں ، اس کو یعنی خودی کو خود پر مسلط نہ کریں اور خود کو بیماروں میں شامل نہ کریں۔